Islam poetry in Urdu/Islamic poetry in Urdu 2 lines text
اردو اسلامی شاعری(Islam poetry in Urdu) زبان کی گہری روحانی گہرائی کا ثبوت ہے۔ یہ اسلام کی لازوال تعلیمات کے ساتھ اردو کی پیچیدہ خوبصورتی کو یکجا کرتا ہے، جس سے عقیدت، عکاسی اور الٰہی کے ساتھ تعلق پیدا ہوتا ہے۔ شاعر ایمان کے اسرار کو جاننے، عقیدت کی باریکیوں کو تلاش کرنے، اور اللہ اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو محبت اور تعظیم رکھتے ہیں اس کا اظہار کرنے کے لیے اردو کے بھرپور الفاظ اور استعاراتی تاثرات کا استعمال کرتے ہیں۔
اردو اسلامی شاعری(Islam poetry in Urdu) کا جوہر ایمان اور روحانیت کے جوہر کو انتہائی فصیح اور روح پرور انداز میں حاصل کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ زبان کا شعری بہاؤ اور گہرے استعارے شاعروں کو اسلام کی پیچیدہ تعلیمات کو بے مثال گہرائی کے ساتھ پہنچانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان آیات سے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گہری محبت کو دریافت کرتی ہیں، ان تک جو زندگی اور موت کے اسرار پر غور کرتی ہیں، اردو اسلامی شاعری (Islam poetry in Urdu)عقیدے کے بالکل جوہر کو زندہ کرتی ہے۔ یہ شاعری نہ صرف روحانی عکاسی کا ذریعہ ہے بلکہ اسلام کی لازوال حکمت کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کی آیات کے ذریعے، مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی ابدی سچائیوں کی یاد دلائی جاتی ہے، اور ان متنوع برادریوں کے درمیان اتحاد اور مشترکہ اقدار کے احساس کو فروغ دیا جاتا ہے جو اردو کو اپنی ادبی اور روحانی میراث کے طور پر قبول کرتی ہیں۔
ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
وہ معززتھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قراں ہوکر
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاںوہی یٰسیں وہی طہٰ
کی محمد ؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
؎ تیرے کعبے کو جبینوںسے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
محمد ؐ بھی تیرا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
جانتاہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس در جہ فقیہان حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا
تجھ سے محرومی کا غم صدیوں رلائے گا مگر
اپنے دیوانوں کو جینے کا ہنر دے کر گئی
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
مسلمانوںمیںخوں باقی نہیںہے !
محبت کا جنوں باقی نہیںہے !
صفیںکج،دل پریشان،سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیںہے
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
دل بینا تو کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
آکر کوئی پلٹائے تو تاریخ کے اوراق
اسلام کی وحدت میں ہے ہر زہر کا تریاق
اقبال نے بتلایا تھا گم ہم میں ہیں آفاق
ہم بھول گئے درسِ خودی کے سبھی اسباق
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائرِ لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
گلا تو گھونٹ دیا تیرا اہل مدرسہ نے
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
کہتا ھوں وہی بات سمجھتا ھوں جسے حق
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
خدا کے بعد برتر، آپ ہی کی، ذات ہے آقا ﷺ
میں کیا لِکھوں، نہ لِکھنے کی، میری اوقات ہے آقا ﷺ
درود آپ پر بھیجوں، تو سب، بِگڑا سنورتا ہے
آپ ہی کی نسبت سے، بنے ہر بات ہے آقا ﷺ
اے خُدا اب تو مِرا تُو ہی بھرم قائِم رکھ
میری آنکھوں کو نمی دی ہے تو نم قائِم رکھ